• Syed Ali Nadeem Rezavi
Translation: Dr Enayatullah Khan

The original article was published in The Frontline, 3rd August 2018. The Urdu translation by Dr Enayatullah Khan, Assistant Professor, Aliah University, Kolkata is being presented before you:
کیا اورنگ زیب ایک متعصب حکمراں تھا یا ایک ایسا حکمراں تھا جو کہ اسلام مذہب کا پیرو کار تھا اور ہندو مذہب کے ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذاہب کو ختم کرنا چاہتا تھا؟- اور کیا اس نے مذہب کا استعمال اپنی سیاسی رسوخ کو بڑھانے کے لیے کیا؟ اس پس منظر میں نو آبادیاتی مو رخ (Colonial historians) جو سیف ڈیوی کننگھم Joseph Davey Cunningham سے لیکر سر جادو ناتھ سرکار، رام سرن شرما اور محمد اطہر علی ما ضی میں اسطرح کے سوالات اٹھا تے رہے ہیں- دور جدید کی مورخ اودرے ٹرسچکی Audrey Truchke نے بھی اس طرح کے سوالات کو اٹھا تے ہو ئے ‘ماخذ کے حوالے سے جواب دینے کی کوشش کی ہے-
تاریخ کے ما خذ کے مطا لوہے کے بعد اورنگزیب پر اسطرح کے جو الزامات لگا ئے جاتے رہے ہیں اس سے اورنگ زیب کو متشنی نہیں کیا جا سکتا- تاہم مزید تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب، اگرچہ ایک متعصب نہیں تھا، لیکن اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے مذہب کا استعمال کرتا تھا- اس کے بر عکس اس نے میواڑ کے مہا رانہ’ رانا راج سنگھ، کو ایک نشان(خط) لکھ کر یہ اطلاع دی کہ وہ اکبر کے دور میں جس طرح کی پالیسی پر عمل درآمد کرتا تھا اسی پر کرتا رہے-
اورنگ زیب War of Succession کے بعد تخت نشیں ہوا تھا اور تخت نشینی کے پہلے دس سال تک جیل میں مقید باپ سے مسلسل اسے لڑنا پڑا، کیونکہ شاہ جہاں کا حیات سے رہنا اورنگ زیب کے لیے ایک مستقل خطرہ بنا ہوا تھا-
جانشیینی کی جنگ کا بغور مطالعہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ جنگ نہ تو فر قہ وارانہ بنیاد پر لڑی گئی اور نہ ہی دارہ شکوہ کی روا دارانہ پا لیسی، اور نہ ہی اورنگ زیب کی ہندو مخالف پا لیسی کی بنیاد پر لڑی گئی-
اورنگ زیب نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اسلام کا دفاع کر نے جا رہے ہیں، اور نہ ہی اسے یہ محسوس ہوا کہ اسلام کو شاہ جہاں یا دارہ شکوہ سے کوئی خطرہ لاحق ہے- لہذا جانشینی کے جنگ کے بعد ہندؤں اور راجپوتوں کے خلاف کسی بھی طرح کے امتیاز کا ذکر نہیں ملتا ہے۔
تخت سنبھالنے کے فوراً بعد اورنگ زیب نے راجہ رگھو ناتھ سنگھ کو اپنی سلطنت کا دیوان Diwan مقرر کیا جو کہ کھتری تھا- راجہ تو ڈر مل کی وفات کے بعد اورنگ زیب نے پہلی مرتبہ ایک ہندو کو دیوان مقرر کیا تھا جہانگیر کے دور میں راجہ مان سنگھ کے علاوہ کسی بھی غیر مسلم کو اہم صوبہ کا صو بیدار نہ تو جہانگیر کے دور میں مقرر کیا گیا اور نہ ہی شاہ جہاں کے دور میں-
اورنگ زیب نے دو اہم غیر مسلموں کو تقرری دی، جس میں ایک مہا راجہ جسونت سنگھ اور دوسرے مرزا راجہ جئے سنگھ، جس میں جسونت سنگھ کو گجرات کے صوبیداری کا عہدہ دیا جو کہ دھرمت کی جنگ Battle of Dharmat میں اورنگ زیب کے خلاف تھا اور خجواہا کی جنگ Battle of Khajua اورنگ زیب کے ساتھ غداری کیا تھا- گجرات اسوقت مغلیہ عہد میں معسیت کا مر کز رہا ہے اس کے باوجود مر زا راجہ جئے سنگھ، کو دکن کا وائسرائے بنایا جو کہ اسوقت صرف بادشاہ کے وارث کے لیے معین تھا- اس سے پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب تعصب پسند نہیں تھا بلکہ وہ اہم عہدے پر لوگوں کی صلاحیت کی بنیاد پر مقرر کر رہا تھا- اس کے علاوہ دیگر امراء کے منصب کو بڑھایا گیا اور انہیں سلطنت کے اہم صوبے یعنی بنگال، گجرات اور بہار میں ہندو امراء کو بحیثیت دیوان مقرر کیا-
اورنگ زیب کے عہد میں دکنی افغا نوں کے علاوہ مر ہٹوں کو بھی حکومت سازی کے کام کے لیے مقرر کیا گیا، جس کی وجہ سے تورانی اور راجپوت امراء ناراض تھے۔ کیونکہ مرہٹوں اور افغا نوں کی تقرری سے کہیں نہ کہیں تو رانی امراء کا نقصان ہو رہا تھا-
مر ہٹوں اور افغا نوں کی بڑھتی شمولیت سے مغل افسر شاہی کو تقویت ملی- پروفیسر ایم اطہر علی کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب کے دور اقتدار میں کل 31% غیر مسلم حکومت کے مختلف شعبے میں کار کردگی انظام دے رہے تھے اس کے بر عکس کبر کے عہد میں ان کی کل تعداد 22% تھی-
اورنگزیب کے عہد کے دوسرے نصف میں مر ہٹوں کی انتظامی امور میں شمولیت سے مراد یہ بالکل نہیں تھا کہ اورنگ زیب، اکبر سے زیادہ سیکولر تھا- یہ ایک انتظامی ضرورت تھی اور اس امر کے ذریعے دکن کے ریاستوں کو مغل ریاستوں میں ملحق کر نا تھا اور یہ مغل بادشاہوں کی سیاسی ضرورت تھی-
ہمیں اس بات کو بھی یاد رکھنا چا ہیے کہ مغل بادشا ہوں میں اورنگ زیب واحد ایک ایسا بادشاہ ہے جس نے مندروں کو سب سے زیادہ امداد دیا، جس کی ایک مشال ورنداون کا مندر ہے-
اورنگ زیب نے خود کو اپنے والد(شاہ جہاں ) سے زیادہ تخت کا حقدار شابت کرنے کے لیے اس نے فتح کی پا لیسی شروع کی- لیکن بد قسمتی سے اورنگ زیب کی زیادہ تر اسطرح کی پالیسی نا کامیاب رہی’ جس میں میر جملہ آسام میں لڑتے ہوئے مارا گیا، اور دکن میں شیواجی نے شاہستہ خان کے خواب گاہ میں حملہ کر دیا- حالانکہ مر زا راجہ جئے سنگھ 1665 میں شیواجی کے ساتھ پو سندھی کا معاہدہ کرنے میں کامیاب تو ہو گیا، لیکن معاہدہ اسوقت ختم ہو گیا جب شیواجی آگرہ سے فرار ہو گیا-
اورنگ زیب کی جب Military expedition نا کام ہوئیں تو یکےبعد دیگر ے کئی بغاو تیں ہو ئی، جیسے 1667 میں یو صفزئی بغاوت، 1669 میں جاٹ بغاوت، 1672میں ستنامی بغاوت، 1674 میں آفریدی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا، اور 1675 مت شیواجی نے خود کو بادشاہ علان کر دیا- لہذا یہ عیاں ہو جاتی ہے کہ اورنگ زیب کو سیاسی محاذ میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی-
اورنگ زیب کو اس بات کا بھی احساس ہو چکا تھا کہ اس کے بہت سے عمل کی وجہ سے Institution of Monarchy کو ٹھیس پہنچی ہے- لہذا جب سیاسی محاذ پر نا کامیابی کا سامنا کرنا پڑا تو اسے چھپانے کیلئے اس نے شریعی قانون پر زور دیا-
اورنگ زیب اپنے سیاسی مفادات کو پورا کرنے اور اپنی نا کامیابیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے مذہب کا استعمال کر نا شروع کر دیا تھا’ جب ۱۶۷۵ میں شیواجی’ خود کو دکن کے بادشاہت کا علان کر دیا- ٹھیک اسی سال کشمیر اور پنجاب کے علاقے میں ایک مسئلہ پیش آیا، وہ مسئلہ یہ تھا کہ کشمیر اور پنجاب میں اورنگ زیب کے اہلکاروں نے غیر مسلموں کو اسلام قبول کر نے پر مجبور کر نے کی کوشش کی، جسکی گرو تیغ بہادر نے مخالفت کی اور اورنگ زیب کے خلاف لوگوں کو ورغلایا، اور گرو تیغ بہادر نے ان لوگوں کے خلاف کارروائی بھی کی جو اسطرح کی حرکتوں میں ملوث تھے اور اورنگ زیب کے خلاف بغاوت پر آما دہ ہو گئے-جوابی کاروائی میں’گرو تیغ بہادر کو گرفتار کیا گیا اور بالاخر ۱۶۷۵ میں پھانسی دے دیا گیا-
جو سف ڈیوی کننگھم (Joseph Davey Cunningham ) کے مطابق، اس واقع کو سمجھنے کے لیئے اس وقت کے تاریخی واقعات سے واقف ہونا ضروری ہے کہ جب تیغ بہادر اپنے والد گرو ہر گوبند کو نظر انداز کر کے، گرو ہر کشن کی موت کے سات سال بعد سکھوں کا سربراہ بنا-
گرو ہر کشن کے دور میں، ان کے بڑے بھائی رام رائے نے، جو کہ خود گرو بننا چاہتا تھا ان کے خلاف مسلسل سازشیں کر تا رہا اور سر کردہ سکھ رہنماؤں کے ساتھ مل کر لوبنگ (Lobbying) کی اور کسان برادری کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہی در حقیقت گرو نانک کے عقیدہ کا وارث ہے- موت کے قبل گرو ہر کشن نے یہ تاثر بھی دیا کہ گرو تیغ بہادر اگلے ‘گرو’ ہو نگے، لہذا حالات کا فائدہ اٹھا تے ہوئے ، گرو تیغ بہادر نے چارج سنبھالا اور سیاسی اتحاد بنانے کے ساتھ ہی ساتھ اپنی آمدنی میں اضافہ کر نے کی کوشش میں لگ گئیں، تاکہ “Guruhood” کا جو دوسرے لوگ دعویٰ کر رہے تھے انکا مقابلہ کیا جا سکے- کننگھم کے مطابق، گرو اور انکے شاگردوں نے ” ہانسی اور ستلج ندی کے درمیان لوٹ مار کر کے انہیں (گرو تیغ بہادر) کو کسانوں میں غیر مقبول بنا دیا “، اسکے علاوہ ان لوگوں نے “ایک شدت پسند مسلم، آدم حافظ کے ساتھ بھی اتحاد کیا اور امیر ہندووں اور مسلمانوں کو چندہ دینے کے لئے مضبور کیا”-
کننگھم مزید فرماتے ہیں کہ گرو نے فرار یوں کو بھی پناہ دیا تھا- اور تیغ بہادر کے خلاف رام رائے نے بھی شہنشاہ سے شکایت کی تھی۔ اور اسطرح سے گرو ہر کشن کی طرح گرو تیغ بہادر پر بھی ” Pretender to Power” کا الزام لگایا گیا- اسطرح گرو تیغ بہادر کو پھانسی بلاشبہ مذہبی اختلاف کی وجہ سے دیا گیا، کیونکہ گرو نے اورنگ زیب کے اہلکاروں کے ذریعے تبدیلی مذہب کے خلاف آواز بلند کیا تھا-
ہم لوگ جانتے ہیں کہ اورنگ زیب نے جسطرح سے تخت پر بیٹھا تھا اس سے Institution of Monarchy کمزور ہوا تھا لہذا، اسطرح کے واقعات سے بچنے کے لیئے اورنگ زیب کو چاہیے تھا کہ Institution of Monarchy کے وقار کو بحال کرتا، جسے وہ نہیں کر پا یا لہذا اسی وجہ کر اورنگ زیب نے مذہبی تقدس کو باد شا ہت کے ادارے سے جو ڑنے کی دانستہ کوشش کی-
لہذا اورنگ زیب نے اپنے آپکو “عا لمگیر” (دنیا کو فتح کرنے والا) اور ” زندہ پیر” (Living Saint) کہلا نا پسند کیا- فوجی مہم (Military Expedition ) کے ذریعے اورنگ زیب خود کو طاقتور شابت کرنے کی کوشش تو کی، لیکن وہ اس میں ناکام رہا کیونکہ شاہ جہاں کے دور سے ہی قدرتی جغرافیائی رکاوٹیں آنے لگی تھی- اسطرح جب وہ سیاسی محاذ پر ناکام رہا، تو اسکے خلاف لگاتار بغا و تیں ہونے لگی(جسکا ذکر قسط-۱ میں کیا گیا ہے) – لہذا اسنے اپنی نا کام پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے شر یعت کا استعمال بطور ڈھال کیا- بلا آخر ۱۶۷۹ میں شہزادہ اکبر (اورنگ زیب کا چھوٹا بیٹا ) نے اپنے والد کے خلاف بغاوت کر دی اور اپنے والد کو نہایت ہی سخت لہذا میں خط لکھ کر کہا کہ ” شاہ شجاع، دارہ اور دیگر لوگوں کی موت کا ذمہ دار آپ (اورنگ زیب ) ہیں۔ اور آپ ہی اخلاقیات کی تعلیم دے رہے ہیں ” آخر کار شہزادہ اکبر کے ایران جاتے ہی اسکی بغاوت ختم ہو گئی- یہ اس بات کی حتمی شبوت ہے کہ اورنگ زیب نے شرعی قانون کا استعمال کر کے مسلم اشرافیہ/امراء کو مغلیہ تخت سے جوڑنے کی کوشش کی-
اسی سال (۱۶۷۹) میں اورنگ زیب نے ‘جزیہ’ کو لا گو کیا تھا- سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اورنگ زیب نے ۱۶۵۸-۱۶۷۹ تک جزیہ کیوں نہیں لگایا؟ اسے اچانک سے لگانے کی کیا وجہ تھی؟
جزیہ ایک امتیازی ٹیکس تھا، لیکن مغلوں کی خدمت میں شامل راجپوت اور بر ہمن اس سے مستشنٰی تھا- جزیہ وصولی کے کئی قسمیں تھی- جیسے امیر ترین لوگوں سے بارہ روپیہ، اور اس سے کمتر آمدنی والے سے آٹھ روپیہ سا لانہ ادا کر نا پر تا تھا- جادو ناتھ کے مطابق اسکی تین قسمیں تھی- اول 3 1/4 ‘دوئم 6 2/3’ اور سوئم 3 1/3 روپے سالانہ ادا کر نا پڑتا تھا- جزیہ کا سب سے سخت پہلو یہ تھا کہ یہ کم آمدنی (غریب) سے ایک ماہ کا تنخواہ بطور ٹیکس ادا کر نا پر تا تھا-
۱۶۷۹ میں اورنگ زیب نے جزوی طور پر، راٹھو ڑ کی بغاوت (Rathor Rebellion) کی وجہ کر مندروں کو منہدم کر نے کا حکم دیا اور جس کے نتیجہ میں جودھپور میں متعدد مندروں کو منہدم کر دیا گیا تھا- اسکے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی کچھ مشہور مندروں کو منہدم کیا گیا جیسے سومناتھ کا مندر(گجرات ) ، وشوناتھ مندر (وارانسی ،سابق بنارس) اور کیشو رائے مندر (متھرا ) شامل ہے۔ جنوری ۱۶۸۰ میں اورنگ زیب نے اودے ساگر جھیل کے کنارے موجود تین مندروں کو بھی منہدم کرا نے کا حکم صا در کیا- مشہور مورخ رام سرن شرما کے مطابق صرف اودے پور میں ۱۷۲ اور چتور میں کل ۶۳ مندروں کو اس درمیان منہدم کیا گیا-
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ، ‘جزیہ’ اور ‘مندروں کے منہدم’ کر نے حکم امتیازی پالیسی پر منحصر تھا- کیونکہ ساتھ ہی ساتھ وہ مندروں کو اسکی دیکھ بھال کے لیے وظیفہ(مالی امداد ) بھی دیا رہا تھا، جسکے دستاویز ات مختلف جگہوں پر موجود ہیں- اس کے ساتھ ہی ساتھ ایسے بھی دستاویزات موجود ہیں جس میں اورنگ زیب نے مندروں کی دیکھ بھال اور پجاریوں کے لیے گرا نٹ (وظیفہ/مالی امداد ) میں متعدد گاؤں دئیے-جس کی ایک اہم مشال ورنداون کے مندروں اور پجاریوں کے لئے دیا گیا گرانٹس ہے جس کی کا پی ابھی بھی چیتنیا گروہ کے مہنتوں کے پاس محفوظ ہے، جسے کئی دہائی قبل مورخ تارا پدا مکھرجی (Tarapada Mukherjee) اور عرفان حبیب(Irfan Habib) نے اپنی تحقیق کے ذریعے عوام الناس کو روشناس کرایا ہے۔ اسطرح کی ایک اور مشال بہرائچ میں موجود نو نی دھارا(Nonidhara Temple) بھی ہے، جسے اورنگ زیب نے وظیفہ (مالی امداد) دیا تھا-
ان تمام اقدامات کا حتمی نتیجہ کیا نکلا؟ یعنی کیا اس سے راجپوت، جو کہ ہندو تھے، اورنگ زیب کے تعلوقات میں کوئی فرق پڑا؟ نہیں! کیونکہ راجپوت، اورنگ زیب کے ذریعہ اٹھا ئے گئے اقدامات یعنی مندروں کو منہدم کرانا، کو ایک سیاسی عمل سمجھتے تھے- یہی وجہ ہے کہ راجپوت، سلطنت کے آخری ایام تک اورنگ زیب کے ساتھ رہے- ۱۶۹۸-۱۷۰۷ یعنی دس سالوں کے درمیان تین اہم جنرل، رام سنگھ ہڈا، دلپت بنڈیلا، اور جئے سنگھ سوائی، جنہوں نے اپنی افواج کے ساتھ مر ہٹوں سے جنگ لڑی- یعنی درج بالا تینوں امراء اپنی اپنی فوجوں کے ساتھ شہنشاہ کی خدمت ایمانداری کے ساتھ کرتے رہے اور انکو وطن جاگیر کا مراعات حاصل تھا-
ایک دفعہ کا واقع ہے کہ شہزادہ اعظم کی اہلیہ، شہزادی نادرہ بیگم ڈولی سے اسلام پور سے (جہاں اسوقت اورنگ زیب موجود تھے) گلگٹ جا رہی تھی کہ اچانک مرہٹوں کی افواج ، جس کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی، شہزادی کو اغوا کرنا چاہتے تھے تاکہ اورنگ زیب کو جھکا یا جا سکے- یہ خبر جیسے ہی رام سنگھ ہڈا کو لگی وہ سات سو پچاس سپاہیوں کے ساتھ شہزادی کی حفاظت کے لئے پہنچ گئے- شہزادی کیونکہ پردے کا احتمام کر تی تھی لہذا پردے کا خیال رکھتے ہوئے شہزادی کی ڈولی سے کچھ فاصلہ بنا کر، ہڈا کا دستہ پیدل ڈولی کے پیچھے پیچھے شہزادی کی حفاظت کے لیے چلتا رہا- اسی درمیان نادرہ بیگم نے رام سنگھ کو بلا یا اور کہی ” چغتا ئیوں کی عزت، راجپوتوں کی ہی طرح ہے”- رام سنگھ فارسی سمجھ تو سمجھتا تھا پر فارسی بول نہیں سکتا تھا لہذا اسنے ٹوٹی پھوٹی فارسی میں شہزادی کو جواب دیا ” ملیچھوں (نا پاک مر ہٹہ) کو ڈولی کی طرف دیکھنے کی بھی ہمت نہیں ہوگی، تو قریب آنے کا سوال ہی نہیں ہوتا “-
سترہویں صدی میں مر ہٹوں کو کبھی بھی اس قسم کی سخت مزا حمت کا سامنا نہیں کر نا پڑا جو رام سنگھ اور اسکے ہڈا افواج نے اسے دی- نادرہ بیگم کی حفاظت میں رام سنگھ نے اپنے بیٹوں کے ساتھ ہی ساتھ تقریباً تین سو راجپوت سپاہیوں کی موت ہو ئی، مرہٹوں کے ساتھ مڈبھیڑ میں- اور آخر کار رام سنگھ کو کا میابی ملی اور اس نے جیسا شہزادی سے کہا تھا کہ ” نادرہ بیگم کی ڈولی کی طرف کوئی نظر تک نہیں ڈال سکتا ” اپنے قول کو شہزادی کی حفاظت کر کے پورا کیا- اسطرح راجپوت اور مغلوں کے درمیان آپسی اعتماد اور محبت کا شبوت ملتا ہے کہ کیسے اور کس حد تک بحران کے وقت راجپوت بادشاہ تو دور ایک شہزادی کی حفاظت کے لئے جا سکتا ہے-
درج بالا واقع ۱۶۹۹ میں رونما ہوا تھا اور اس واقعہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ راٹھور کی بغاوت اور اورنگ زیب کے امتیازی پالیسیوں کے با وجود اورنگ زیب نے راجپوتوں کا اعتماد نہیں کھو یا تھا-
ازدواجی تعلقات اور جذباتی وابستگیوں کے علاوہ مغلوں اور راجپوتوں کے تعلوقات فطری طور پر یکساں تھے-اور مغلیہ سلطنت کی تو سیع کے ساتھ ہی ساتھ راجپوت ریا ستیں بھی ترقی اور خوشحال ہو تی رہی- اور اٹھا رویں صدی میں جب مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوا، اسکے ساتھ ہی مر ہٹوں نے راجپوتوں کے عظیم الشان محلوں کو لوٹ لیا- راجپوتوں اور مغلوں کی تعلوقات کا عمیق مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سولہویں، سترہویں، اور اٹھارویں صدی میں مغل اور راجپوت ایک ساتھ مل جل کر ترقی کرتے رہے اور مغلوں کے زوال کے ساتھ ہی ساتھ راجپوتوں کا بھی زوال ہو گیا-
مضمون نگار: سید علی ندیم رضوی، پروفیسر، شعبہ تاریخ، علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی، علی گڑھ
مترجم: عنایت اللہ خان، عا لیہ یو نیورسٹی، کولکاتہ